شاہین عباس ۔۔۔ مٹی پہ قدم

مٹی پہ قدم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری آنکھوں کےپچھواڑ سے بھی گئے
تیری تنہائی کی نیلگوں آڑ میں
ہنسنے رونے کی معیاد پوری ہوئی
لوگ چھوٹے پڑے
عشق جھوٹا پڑا
سبز  وعدوں کا شیشہ زمیں پر گرا
اور دنیاکی بنیاد رکھی گئی
دیکھتے دیکھتے
چار سمتوں کے آباد کاروں میں ہم منتخب ہوگئے
بن پڑھے، بن لکھے
آٹھ پہروں کے عرضی گزاروں میں ہم
بیٹھنے لگ گئے
بھاگنے لگ گئے کاغذوں پر
گناہوں کی رفتار سے
اور لوح وقلم ہم کو چھوٹے پڑے
کانپنے لگ گئے
چار سمتوں کا بیڑا اُٹھائے ہوئے
سوچنے لگ گئے
خاک کی رسیوں میں بندھے
اپنے قبلوں کو لادے ہوئے پشت پر
کس طرف جائیں گے
کون محراب بانہوں میں لے گی ہمیں
کون مینار اپنے عقب میں بٹھائیں گے؟
اپنی اداسی کو نمٹائیں گے
کون
کب
کس سمے۔۔۔
تو اَے اوٹ والے!
یہ ہم کھوٹ والے
جو گھونگھٹ کی (تیرے ہی گھونگھٹ کی)
لپٹوں سے
ناکارہ گرہوں کی صورت جھڑے تھے
جھڑے ہی رہیں گے؟

Related posts

Leave a Comment